بسم اللہ الرحمن الرحیم

محفلِ میلاد کے چراغ اگرچہ ضیاء بار ہوں، در و دیوار اگرچہ جلوہ‌فشان ہوں، نعتوں کے زمزمے اگرچہ فضا کو معطر کریں، اور ہر زبان اگرچہ مدحتِ مصطفیٰ ﷺ کا ترانہ چھیڑے، مگر سوال یہ ہے کہ یہ چراغاں دل کی تاریکیوں کو کیوں نہ مٹاتا؟ یہ آراستگی کردار کی ویرانیوں کو کیوں نہ بھگاتا؟ وہ دل جو سارا سال سجدے سے خالی رہا، آج یکایک شادمانی کا اسیر کیوں ہے؟ وہ ہاتھ جو حرام کی کھیتی بوتے رہے، آج طہارت کا پرچم کیوں تھامے ہوئے ہیں؟ وہ قدم جو حقوقِ وراثت روندتے رہے، آج محبت کے نغمے کیوں سنوار رہے ہیں؟ وہ تاجر جو ناپ تول میں دھوکہ دیتا رہا، آج اخلاص کا آئینہ کیوں دکھا رہا ہے؟ وہ زبان جو گالیوں سے آلودہ رہی، آج نعتوں کی مٹھاس کو نجات کا ذریعہ کیوں سمجھ رہی ہے؟ وہ دل جو نفس کے غبار میں ڈوبا رہا، آج نورِ محبت کا دعویدار کیوں بنا ہوا ہے؟ وہ زندگی جو معصیت کی وادیوں میں بسر ہوئی، آج اطاعت کی منزل پر کیوں سجدہ ریز ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ محبت صرف دعویٰ سے نہیں بلکہ اطاعت سے ہے، عشق صرف چراغاں سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے ہے، اور میلاد کا جوہر صرف جشن میں نہیں بلکہ اتباع میں ہے۔

میلاد محض رسم نہیں بلکہ عزم ہے؛ یہ محض نغمہ نہیں بلکہ نصب العین ہے؛ یہ محض چراغاں نہیں بلکہ سیرت کا چراغ ہے۔ میلاد یہ ہے کہ دل کو حیا سے منور کرو، زبان کو ذکر سے معطر کرو، ہاتھ کو صدق و صفا کا پیکر بناؤ، اور قدم کو طاعت و وفا کا مسافر کرو۔ میلاد یہ ہے کہ رزق کو حلال سے سنوارو، معاملات کو دیانت سے سنوکھا کرو، اور کردار کو صداقت سے مزین کرو۔ میلاد یہ ہے کہ یتیم کے دل میں امید کا چراغ جلاؤ، غریب کے دامن میں سکون کے پھول ڈالو، اور مظلوم کی آہوں کو دعا میں بدل دو۔ میلاد یہ ہے کہ والدین کے قدموں کو جنت کا در سمجھو، اہلِ خانہ کے حقوق کو محبت کا فرض جانو، اور ہمسایہ کے دکھ کو اپنے دل کا درد مانو۔ جان لو! چراغاں بجھ جائے گا مگر اطاعت باقی رہے گی، نعت ختم ہو جائے گی مگر سنت باقی رہے گی، محفل چھٹ جائے گی مگر اسوہ باقی رہے گا۔ پس، اگر ہر لمحہ اطاعت ہے تو ہر لمحہ میلاد ہے، اگر ہر دن اتباع ہے تو ہر دن عید ہے، اگر ہر سانس ذکر ہے تو ہر سانس سلام ہے۔ اگر دل اطاعت کا آئینہ ہے تو وہی دل عید کا گہوارہ ہے، اگر عمل سنت کا پیکر ہے تو وہی عمل میلاد کا سرمایہ ہے۔

خوشی کے چراغ اگر مکان کے کونے کونے کو روشن کریں مگر دل کے زوایے ظلمت میں ڈوبے رہیں تو یہ عید نہیں، عتاب ہے؛ نعتوں کے زمزمے اگر فضا کو معطر کریں مگر کردار کی راہیں کج رہیں تو یہ محفل نہیں، محال ہے؛ درود کی صدائیں اگر لبوں تک محدود ہوں مگر عمل کی دنیا معصیت سے ملوث ہو تو یہ محبت نہیں، مغالطہ ہے۔ جو حضور ﷺ کے میلاد کا جشن منائے مگر ان کے فرمان کو پسِ پشت ڈالے، وہ حقیقت میں خوشی کا نہیں، فریب کا اسیر ہے؛ جو چراغاں کرے مگر اطاعت سے منہ موڑے، وہ نور کا نہیں بلکہ ظلمت کا طلبگار ہے۔ سنو! اطاعت ہی محبت کی دلیل ہے، اتباع ہی عشق کی پہچان ہے، اور فرمانبرداری ہی میلاد کا اصل عنوان ہے۔

میلاد محفل کی زیبائش نہیں بلکہ زندگی کی آرائش ہے؛ یہ محض چراغوں کا اجالا نہیں بلکہ دلوں کا اجالا ہے؛ یہ محض زبان کا ترنم نہیں بلکہ اعمال کا تسلسل ہے۔ میلاد یہ ہے کہ رزق کو حلال سے سنوارو، کردار کو صداقت سے مزین کرو، لین دین کو دیانت سے معطر کرو، اور تعلقات کو محبت سے جلا بخشو۔ میلاد یہ ہے کہ آنکھ کو حیا سے محفوظ رکھو، کان کو غیبت سے بچاؤ، زبان کو درود سے معمور کرو، اور دل کو ذکر سے آباد کرو۔ یاد رکھو! اگر ہر دن اطاعت میں بسر ہو تو ہر دن میلاد ہے، اگر ہر لمحہ سنت کی خوشبو سے مہکے تو ہر لمحہ عید ہے، اور اگر ہر سانس عشقِ مصطفیٰ ﷺ میں ڈوبی ہو تو ہر سانس سلام ہے۔ یہی ہے میلاد کی حقیقت، یہی ہے محبت کا معیار، یہی ہے عشق کا اعتبار۔

اصل جشنِ میلاد یہ ہے کہ تجارت کو طہارت سے آراستہ کرو، کمائی کو صفا و وفا سے مزین کرو، رزق کو صدق و عدل سے معطر کرو۔ اصل جشنِ میلاد یہ ہے کہ سحر کو تسبیح کا رفیق بناؤ، شام کو تہجد کا حبیب بناؤ، دن کو عبادت کا نصیب بناؤ۔ اصل جشنِ میلاد یہ ہے کہ یتیم کو یاری دو، غریب کو غمگساری دو، مسکین کو مسرت دو۔ یہ ہے وہ حقیقت کہ جب اخلاقِ محمدی ﷺ سے زندگی کو روشن کرو گے تو ہر شب چراغاں ہے، ہر دن عیداں ہے، ہر لمحہ رحمت کا نزولاں ہے۔ جان لو! محفل کے چراغ بجھ جائیں تو بجھ جائیں، مگر اطاعت کا چراغ بجھنے نہ پائے؛ گلیاں تاریک ہوں تو ہوں، مگر دل کی روشنی ماند نہ ہو۔ یہی ہے میلاد کا مفہوم، یہی ہے محبت کا مضمون، یہی ہے اطاعت کا قانون۔

محبت کا دعویٰ زبان سے آسان ہے مگر حقیقت میں مشکل ہے۔ اے محبت کے مدعیو! اگر تم عشقِ مصطفیٰ ﷺ کے دعویدار ہو تو اپنی حیات کو طاعت و عبادت کا پیکر بناؤ، کردار کو صداقت و امانت کا مظہر بناؤ، اعمال کو خلوص و اخلاص کا منظر بناؤ۔ جھوٹ کو زبان سے نکالو، غیبت کو دل سے بھگاؤ، حرام کو ہاتھ سے ہٹاؤ۔ آنکھ کو حیا سے سنوارو، کان کو غیبت سے بچاؤ، زبان کو درود سے سجاؤ۔ قدم کو اطاعت کی راہ پر بڑھاؤ، دل کو ذکر و محبت میں ڈوباؤ، جان کو فرمانبرداری میں کھپاؤ۔ جان لو! اگر تم نے ایسا کیا تو ہر لمحہ تمہارا میلاد ہے، ہر سانس تمہاری نعت ہے، ہر دن تمہاری عید ہے۔ یہی ہے عشق کی پہچان، یہی ہے محبت کا سامان، یہی ہے میلاد کا ایمان۔

یاد رکھو! میلاد کا تقاضا صرف زبان کی مٹھاس نہیں بلکہ دل کی پاکی ہے، صرف محفل کی رونق نہیں بلکہ باطن کی صداقت ہے، صرف محض جشن نہیں بلکہ عمل کا احسن ہے۔ میلاد یہ ہے کہ دل کو غرور سے پاک کرو، جان کو فسق سے دور کرو، حیات کو صدق سے معمور کرو۔ میلاد یہ ہے کہ وعدے کو پورا کرو، عہد کو نبھاؤ، حق کو ادا کرو۔ میلاد یہ ہے کہ ظلم کو مٹاؤ، عدل کو بٹھاؤ، انصاف کو جگاؤ۔ اگر تم نے اپنی زندگی کو سنت کی روشنی میں ڈھال لیا تو ہر دن عید ہے، ہر لمحہ سعید ہے، ہر ساعت امید ہے۔ جان لو! مصطفیٰ ﷺ کی پیروی ہی اصل وفا ہے، ان کی اطاعت ہی اصل بقا ہے، ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہی اصل عطا ہے۔

میلاد صرف چراغاں کی جھلمل نہیں بلکہ ایمان کے چراغ کی شمع ہے، یہ محفل کی گونج نہیں بلکہ دل کی سچائی کی موج ہے، یہ نعت کے نغمے نہیں بلکہ طاعت کے زمزمے ہیں۔ میلاد وہ ہے کہ کردار کو سنوارا جائے، گفتار کو نکھارا جائے، رفتار کو سدھارا جائے۔ میلاد وہ ہے کہ رزق کو حرام سے بچایا جائے، تجارت کو ملاوٹ سے پاک بنایا جائے، معاشرت کو دیانت سے آراستہ کیا جائے۔ میلاد وہ ہے کہ یتیم کی آنکھ کو آنسو سے خالی کیا جائے، غریب کے دل کو امید سے بھرا جائے، مظلوم کی سسکی کو دعا میں ڈھالا جائے۔ میلاد وہ ہے کہ زبان ذکر کی عادی ہو، دل شکر کا باسی ہو، قدم اطاعت کے راہی ہوں۔ اگر یہ سب کیا جائے تو ہر لمحہ میلاد ہے، ہر دن عید ہے، ہر سانس سعید ہے۔

میلاد کا جوہر دعویٰ نہیں بلکہ حقیقت ہے، یہ رسم نہیں بلکہ نسبت ہے، یہ جشن نہیں بلکہ اطاعت ہے۔ اگر تمہارے اعمال حضور ﷺ کی تعلیمات سے خالی ہیں تو محفلوں کا ہجوم بھی تمہیں نجات نہ دے گا، اور اگر تمہارے کردار میں سنت کا چراغ روشن ہے تو تنہائی بھی تمہارے لئے عید ہوگی۔ جان لو کہ اصل میلاد زبان کے ترانے نہیں بلکہ دل کے پیمانے ہیں، یہ روشنی کے چراغ نہیں بلکہ اعمال کے سراغ ہیں۔ جب تم جھوٹ کو چھوڑتے ہو تو یہی میلاد ہے، جب تم وعدہ نبھاتے ہو تو یہی میلاد ہے، جب تم حیا کو اپناتے ہو تو یہی میلاد ہے۔ اے غفلت زدہ دل! اگر تو نے صاحبِ میلاد کے احکام کو اختیار کر لیا تو تیری حیات سراپا طاعت ہے، تیری ممات سراپا سعادت ہے، اور تیرا ہر لمحہ سراپا میلاد ہے۔

فقیر تنویر المصطفی اویسی

2 Responses

  1. Quis purus quam aenean nulla, habitant convallis scelerisque nulla hymenaeos, massa dolor per tempor massa posuere nunc, natoque sodales neque pulvinar. Duis nibh donec. Sed accumsan. Wisi mollis id nam, quam in purus culpa.

    1. Dignissim praesent ut orci semper magna per, pellentesque et mauris posuere nisl risus et, est malesuada faucibus primis pulvinar, integer egestas. Ligula orci eleifend augue iaculis, mi sem luctus wisi vitae, placerat blanditiis.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *